"ہاں میں نے ٹھان لی ہے ، جی ہاں میں کرسکتا ہوں"
میں نہیں ہارونگا ، میں ہر چیلنج قبول کرونگا۔
کیونکہ قدرت کا معمول ہے کہ وہ جس کسی کو بڑا بنانا چاہتی ہے تو اس
کے سامنے چیلنجز کریٹ کرتی ہےبلکہ مختلف چیلنجز کا دربار لگتا ہے۔ اور مجھے لگ رہا
ہے چیلنجز میرے سامنے ہیں اور میں ہر چیلنج قبول کر نے لگا ہوں ، میں نے نہیں ہارنا
۔۔ آپ نے ہنسنا ہے تو ہنسئے قہقہے لگائیے لیکن میں ایک تاریخ رقم کروں گا ۔۔ میرے
چھوٹے چھوٹے نقصان مجھے بہت آگے لے جائیں گے اور ایک دن میں اپنی منزل پالوں گا
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ انسان کبھی بڑا نہیں بنا جس کے سامنے K2 جتنا بڑا
چیلنج نہ تھا اس لئے مجھے چیلنج قبول کرنا ہے۔۔ اور جیتنا ہے۔۔
ہارنے سے پہلے یا ہار تسلیم کرنے سے پہلے مجھے دنیا سے رخصت ہونا
چاہئے لیکن مجھے ابھی نہیں جانا دنیا سے ۔۔لہذا میں ہر وہ چیلنج قبول کرنے
جارہاہوں جو مجھے ہرانا چاہتا ہے۔
أپ بھی ہر اس چیلنج کا سامنا کیجئے جس نے آپ کو توڑ کر رکھ دیا
ہے۔جس نے آپ کے خواب چکنا چور کئے ہیں۔
یاد رکھئے ! زندگی میں سینکڑوں بالز آپ سے چھوٹ جائیں گی، ہزاروں
وکٹس گر جائیں گی لیکن اگر آپ پچ پر کھڑے رہے تو آپ یقینا وکٹ بچائیں گے اور پھر
گیند پر گیند کو بھی کیچ کرتے چلے جائیں گے۔
مجھے ہر چیلنج کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا ہوگا
وجہ ایک ہی ہے کہ میرے پاس کوئی میراث نہیں ، اپنا نام ، مقام ، شہرت دولت سبھی
میں نے خود حاصل کرنی ہیں اور یہ بھی ایک اصول ہے کہ چیلنجز بھی غریبوں کو ہی
درپیش ہوتے ہیں اور ان سے نمٹنا بھی غریب ہی جانتے ہیں۔
دنیا کی ہر فیلڈ کے بڑے شخص کا بچپن اور جوانی جھونپڑوں میں ہی
گزری ہے یعنی بڑی شخصیات کے ساتھ کسمپرسی اور جھونپڑیاں لازم وملزوم ہیں۔۔۔ آپ
جائزہ لیجئےگا۔۔
اکثرامیر زادے بڑے لوگ نہیں بن سکتے کیونکہ ان کی زندگی میں کوئی
چیلنج نہیں ہوتا۔۔وہ سونے کے چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے اور پھر کسمپرسی یا بے
نامی میں دنیا سے چلے جاتےہیں۔یہ فطرت کا طے شدہ اصول ہے کہ وہ کامیاب اور بڑا
آدمی اس کو بناتی ہےجو چیلنج قبول کرے اور پھر اپنے مقصد کی خاطر سر دھڑ کی بازی
تو لگادے مگر پیچھے نہ ہٹے۔
اللہ نٕے بھی کامیاب لوگوں کی اسی صفت کے متعلق فرمایا ہے کہ
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ* [الأحقاف:13]
ترجمہ:-
یعنی جو لوگ اللہ سے لَو لگاتے ہیں اور اس پر استقامت بھی اختیار کرتے ہیں ان پر کسی قسم کا خوف اثر نہیں کرتا بلکہ وہ ہر خوف کا مقابلہ کرجاتے ہیں ، خوف پر فتح حاصل کرلیتے ہیں اور فوز و فلاح کی سیڑھیاں چڑھتے جاتے ہیں۔
یعنی جو لوگ اللہ سے لَو لگاتے ہیں اور اس پر استقامت بھی اختیار کرتے ہیں ان پر کسی قسم کا خوف اثر نہیں کرتا بلکہ وہ ہر خوف کا مقابلہ کرجاتے ہیں ، خوف پر فتح حاصل کرلیتے ہیں اور فوز و فلاح کی سیڑھیاں چڑھتے جاتے ہیں۔
قدرت نے تمام انبیا ٕ کو بڑا بنانا تھا اور انہیں دیگر لوگوں کے لیے آئیڈیل بنانا تھا اس لیے ان کی زندگیوں میں نٸے نٸے چیلنجز پیدا کیے اور وہ کمال مجاہدوں اور مشکلوں سے گزر گٸے اور پھر کندن بن گٸے۔
انبیاء نے کبھی ہمت نہیں ہاری اس لیے وہ اَمر ہوگٸے۔
اور یاد رہے جن جن لوگوں نے چیلنجز کا سامنا نہیں کیا قدرت نے
انہیں نشان عبرت بنا کر رکھ دیاکیونکہ قدرت چیلنجز اور مشکلات کے ذریعے ہمارا امتحان
لینا چاہتی ہے۔ اگر ہم اس میں سرخرو ہوئے تو پھر ہم دنیا کے ناموروں میں شمار
ہونگے بصورت دیگر ہم خس وخاشاک میں بہہ جائیں گے۔
تو بتائیے!
أپ نے اَمر ہونا ہے یا پھر خس وخاشاک میں بہہ جانا ہے۔
میں نے تو ٹھان لی ہے
کہ میں فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ آپ بھی عہد کیجئے اور ہر خوفناک
چیلنج کا سامنے کرتے جائیے پھر یقینا آپ کی ناموری کی خوفناک کہانی دنیا کے لیے
ایک مثال بن جائے گی ۔لوگ آپ کی محنت اور جہد مسلسل کی مثالیں دیں گے.
عطاءاللہ سندھی۔






No comments:
Post a Comment