![]() |
Attaullah Kehar |
بزنس کے 21 رہنما اصول
کاروبار شروع کرنے کے لیے صرف سرمائے کے ساتھ ساتھ عقل مندی، دیانت داری، ایمان داری اور تجربے کی بھی بہت اہمیت ہے۔ کوئی بھی کاروبار اسلام کے اصولوں اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اور حیات طیبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جائے تو اس میں برکت تو ہے ہی، وہ دیگر کاروباروں میں یقیناً ایک نمایاں مقام حاصل کر لیتا ہے۔ ذیل میں چند کار آمد باتیں ذکر کی جاتی ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر بآسانی کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے اور اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن دیکھا جا سکتا ہے۔
1 نوعیت کا تعین: سب سے پہلے تو اس بات کا تعین کیا جائے کہ کاروبار کس نوعیت کا کرنا ہے۔ کاروبار کی اہم تین قسمیں ہیں:
2: تجربہ شرط: ان تینوں میں سے کسی ایک کاروبار کا تعین کریں، جس کاروبار کا آپ کچھ تجربہ رکھتے ہیں۔ تجربے کی بنیاد پر شروع کیا جانے والا کاروبار کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ تجربہ حاصل کرنے کے لیے کسی اچھے اور ماہر کاروباری شخص کے ساتھ وقت گزاریں۔ کاروبار کی سوجھ بوجھ لیں۔ اس کی پیچیدگیوں کو سمجھیں۔ اس کے لیے آپ اس کے کاروبار میں کچھ وقت لگائیں، خواہ وہ وقت نوکری کی صورت میں کیوں نہ ہو۔
3: سرمایہ کیسا؟ اس کے بعد اپنے سرمائے کی نوعیت دیکھیں۔ سود پر پیسہ دینے والی کمپنیوں (بینک وغیرہ) کی مدد سے کاروبار ہرگز نہ کریں۔ سود اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان ہے۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے آج تک کوئی طاقت جیت نہیں سکی۔ جتنا سرمایہ آسانی سے میسر ہو سکے۔ اسی کو لے کر اللہ تعالی کے نام سے کاروبار شروع کر دیں۔
4: حفاظتی تدابیر: اس کے بعد اپنے طے کردہ کاروبار کو دیکھتے ہوئے جگہ (Location) کا تعین کریں، جو ہر لحاظ سے آپ کے کاروبار کے لیے مفید ہو۔ مثلاً آپ اور آپ کے ملازمین کو آمد و رفت میں کوئی دقت اور مشکل نہ ہو۔ اشیا کے نقل و حمل میں پریشانی نہ ہو۔ حفاظتی اعتبار سے بھی جگہ پُر امن ہو۔

5: چھوٹا کاروبار، رسک کم: کاروبار کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ بہت بڑے پیمانے پر ہو، بلکہ کاروبار جتنے چھوٹے پیمانے پر شروع کریں گے، اتنا رسک کم ہو گا۔ جب کاروبار شروع کر دیں گے، اس کے ساتھ آپ کا تجربہ بڑھتا جائے گا۔ پھر تجربے کی بنیاد پر وقت کے ساتھ ساتھ کاروبار وسیع کرتے جائیں۔ اس طرح آپ کو نقصان پہنچنے اور کاروبار ڈوبنے کا خطرہ کم ہو جائے گا۔
6: باصلاحیت عملہ: کاروبار کی ابتداء ہی سے بہترین ملازمین کو بھرتی کرنا ضروری ہے۔ ان میںکام کرنے کی اہلیت اور قابلیت ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ اعلیٰ تعلیم، ایمان داری اور دلچسپی جیسی چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے نوجوان نسل کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ نوجوانوں میں جو لگن اور جذبہ ہوتا ہے، وہ عمر کے کسی بھی حصے میں نہیں ہوتا۔ ان کو صرف موقع کی تلاش ہوتی ہے جو کہ آپ جیسے کاروباری لوگ ان کو فراہم کر سکتے ہیں۔
7: حسن سلوک: کاروبار سے جڑے ہر شخص کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں۔ انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ خاص طور پر اپنے ملازمین کی ہر بنیادی سہولت کا خیال رکھیں۔ ان کی تنخواہ غیر معقول اور کم رکھنے کا تصور بھی نہ کریں۔ اگر آپ کے ملازمین آپ سے مطمئن نہیں ہوں گے، تو وہ آپ کی چاہت اور معیار کے مطابق آپ کو نتیجہ نہیں دیں گے۔
8: حوصلہ افزائی: سالانہ یا ششماہی اپنے ملازمین کو bonus یا Reward دینے کی ترتیب بنائیں۔ یہ عمل ملازمین کے لیے سب سے بڑا محرک (Motivation) ہے۔ اس سے نہ صرف ملازمین اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں، بلکہ کبھی ضرورت پڑنے پر اضافی وقت بھی خوشی سے دیتے ہیں۔
9: مارکیٹنگ، ایڈوٹائزنگ: اپنی حیثیت کے مطابق اپنے کاروبار کی مارکیٹنگ کریں۔ اس کے لیے اشتہارکی مہم بھی چلائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ عوام الناس کو آگاہ کرنے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کریں۔ تاہم ضروری ہے آپ کی ایڈوٹائزنگ اور مارکیٹنگ اللہ کے احکامات سے ہرگز متصادم نہ ہو۔ ایڈوٹائزنگ کے شریعہ کمپلائنس طریقے اختیار کرنے میں جدّت بھی ہے اور برکت بھی۔
10: چیک اینڈ بیلنس: کاروبارکی ابتداء سے اصول پسند، مضبوط، ایماندار مینجمنٹ کا انتخاب کریں۔ اپنے کاروبار کے ہر حصے میں چیک اینڈ بیلنس (Check & Balance) رکھیں۔ ہر شخص کو اس کی قابلیت جانچنے کے بعد اس کے مطابق کام سونپیں اور روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی (Performance) طلب کریں۔ اس سے تمام ملازمین میں ذمہ داری پیدا ہو گی اور جواب دہ ہونے کا ڈر بھی ہو گا۔
11: اپنا حصہ ڈالیں: اپنے کاروبار کے ہر نوعیت کے کام خود بھی انجام دیتے رہا کریں، خواہ اس کام کے لیے ملازمین ہی کیوں نہ ہوں، تاکہ غیر متوقع حالات آنے پر آپ ہر مسئلے سے نمٹ سکیںاور دوسروں کی محتاجی کی ضرورت نہ ہو، ورنہ آپ کا کاروبار آپ کے سامنے ڈوب رہا ہوگا اور آپ ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔
12 : حکمت عملی: کاروبار سے جڑے اہم لوگوں میں گاہک کا نمبر سب سے پہلے آتا ہے۔ گاہک کو خوش اور مطمئن رکھنے کا آسان ترین حل اشیا کا اعلیٰ معیار اور کم قیمت ہے۔ پرانے اور مستقل گاہک کو وقت پر ان کی اشیا فراہم کریں۔ اگر گاہک کو آپ کے ذریعے بروقت، معیاری اور سستی چیز فراہم ہو گی، وہ آپ کے علاوہ کہیں اور رجوع کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔
13: رعایت برتیں: چھوٹے گاہک کا بھی بہت خیال رکھیں۔ انہیں ضرورت کے وقت کم قیمت پر ادھار اشیا فراہم کریں، تاکہ ان کو بھی کمانے کا موقع ملے۔ ان کے ساتھ ہرگز سود کا معاملہ نہ رکھیں۔ ان کو کچھ وقت کی مہلت دیں تاکہ وہ آپ کی اشیا فروخت کر کے آپ کے پیسے بھی لوٹا سکیں اور خود بھی دو پیسے کما سکیں۔
14: امانت داری: جھوٹ بول کر اشیا فروخت نہ کریں۔ امانت داری کے ساتھ گاہک کو اس کی ڈیمانڈ کے مطابق اشیا فراہم کریں۔ امانت داری سے پیسہ کمانے میں بہت برکت ہے۔
15: اخلاقیات کا لحاظ: اشیا فروخت کرنے میں گاہک کو جتنی سہولت فراہم کر سکتے ہیں، اس میں کوتاہی نہ کریں۔ اس سے آپ کے کاروبار کی کارکردگی پر بھی اثر پڑے گا اور اخلاقی اعتبار سے بھی یہ اچھی بات ہے۔ اس طرح آپ مارکیٹ میں اپنی ساکھ بنا سکتے ہیں جو آپ کے کاروبار کی ترقی کے لیے تیر بہدف ہے۔ 16 دلکش پیکنگ: پروڈکٹ کی کوالٹی کے ساتھ ساتھ پیکنگ کا بھی خیال رکھیں۔ پیکنگ مضبوط اور دل کش ہو، اس سے گاہک متاثر اور متوجہ بھی ہوتا ہے۔
17: رعایتی اسکیمیں: وقتاً فوقتاً مختلف اسکیمیں متعارف کروائیں، جس سے گاہک آپ کی اشیا کو خریدنے میں اپنا فائدہ سمجھے اور ان کو بچت بھی ہو۔
18: حسد کا نقصان: اپنے ہم پیشہ کاروباری افراد سے اچھے تعلقات قائم کریں، بجائے اس کہ ان سے حسد اور جلن رکھی جائے۔ آپ کی اس عادت سے آپ کا دھیان اپنے کاروبار سے زیادہ ان کے کاروبار کی طرف ہو گا، جو آپ کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ حسد کرنے والے کو اللہ اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سخت ناپسند فرمایا ہے۔
19: بدلتے حالات کے ساتھ: روزانہ کاروباری خبروں پر نظر رکھیں تاکہ آپ کو مارکیٹ کی مکمل معلومات ہوں، بدلتے حالات سے باخبر رہیں، تاکہ اس کے مطابق خود کو ڈھال سکیں۔
20 : با اصول شہری کی طرح: حکومت کے قوانین پر امانت داری سے عمل کریں۔ اپنا ٹیکس بچانے کے لیے جھوٹی رپورٹیں پیش نہ کریں۔ جتنا آپ پر ٹیکس بنتا ہے، پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کریں۔
21 : وبال سے بچاؤ کے لیے: وقت پر زکوۃ ادا کریں، کیونکہ زکوۃ دینے سے مال میں برکت ہوتی ہے۔
کاروبار شروع کرنے کے لیے صرف سرمائے کے ساتھ ساتھ عقل مندی، دیانت داری، ایمان داری اور تجربے کی بھی بہت اہمیت ہے۔ کوئی بھی کاروبار اسلام کے اصولوں اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اور حیات طیبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جائے تو اس میں برکت تو ہے ہی، وہ دیگر کاروباروں میں یقیناً ایک نمایاں مقام حاصل کر لیتا ہے۔ ذیل میں چند کار آمد باتیں ذکر کی جاتی ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر بآسانی کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے اور اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن دیکھا جا سکتا ہے۔
1 نوعیت کا تعین: سب سے پہلے تو اس بات کا تعین کیا جائے کہ کاروبار کس نوعیت کا کرنا ہے۔ کاروبار کی اہم تین قسمیں ہیں:
2: تجربہ شرط: ان تینوں میں سے کسی ایک کاروبار کا تعین کریں، جس کاروبار کا آپ کچھ تجربہ رکھتے ہیں۔ تجربے کی بنیاد پر شروع کیا جانے والا کاروبار کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ تجربہ حاصل کرنے کے لیے کسی اچھے اور ماہر کاروباری شخص کے ساتھ وقت گزاریں۔ کاروبار کی سوجھ بوجھ لیں۔ اس کی پیچیدگیوں کو سمجھیں۔ اس کے لیے آپ اس کے کاروبار میں کچھ وقت لگائیں، خواہ وہ وقت نوکری کی صورت میں کیوں نہ ہو۔
3: سرمایہ کیسا؟ اس کے بعد اپنے سرمائے کی نوعیت دیکھیں۔ سود پر پیسہ دینے والی کمپنیوں (بینک وغیرہ) کی مدد سے کاروبار ہرگز نہ کریں۔ سود اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان ہے۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے آج تک کوئی طاقت جیت نہیں سکی۔ جتنا سرمایہ آسانی سے میسر ہو سکے۔ اسی کو لے کر اللہ تعالی کے نام سے کاروبار شروع کر دیں۔
4: حفاظتی تدابیر: اس کے بعد اپنے طے کردہ کاروبار کو دیکھتے ہوئے جگہ (Location) کا تعین کریں، جو ہر لحاظ سے آپ کے کاروبار کے لیے مفید ہو۔ مثلاً آپ اور آپ کے ملازمین کو آمد و رفت میں کوئی دقت اور مشکل نہ ہو۔ اشیا کے نقل و حمل میں پریشانی نہ ہو۔ حفاظتی اعتبار سے بھی جگہ پُر امن ہو۔

5: چھوٹا کاروبار، رسک کم: کاروبار کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ بہت بڑے پیمانے پر ہو، بلکہ کاروبار جتنے چھوٹے پیمانے پر شروع کریں گے، اتنا رسک کم ہو گا۔ جب کاروبار شروع کر دیں گے، اس کے ساتھ آپ کا تجربہ بڑھتا جائے گا۔ پھر تجربے کی بنیاد پر وقت کے ساتھ ساتھ کاروبار وسیع کرتے جائیں۔ اس طرح آپ کو نقصان پہنچنے اور کاروبار ڈوبنے کا خطرہ کم ہو جائے گا۔
6: باصلاحیت عملہ: کاروبار کی ابتداء ہی سے بہترین ملازمین کو بھرتی کرنا ضروری ہے۔ ان میںکام کرنے کی اہلیت اور قابلیت ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ اعلیٰ تعلیم، ایمان داری اور دلچسپی جیسی چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے نوجوان نسل کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ نوجوانوں میں جو لگن اور جذبہ ہوتا ہے، وہ عمر کے کسی بھی حصے میں نہیں ہوتا۔ ان کو صرف موقع کی تلاش ہوتی ہے جو کہ آپ جیسے کاروباری لوگ ان کو فراہم کر سکتے ہیں۔
7: حسن سلوک: کاروبار سے جڑے ہر شخص کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں۔ انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ خاص طور پر اپنے ملازمین کی ہر بنیادی سہولت کا خیال رکھیں۔ ان کی تنخواہ غیر معقول اور کم رکھنے کا تصور بھی نہ کریں۔ اگر آپ کے ملازمین آپ سے مطمئن نہیں ہوں گے، تو وہ آپ کی چاہت اور معیار کے مطابق آپ کو نتیجہ نہیں دیں گے۔
8: حوصلہ افزائی: سالانہ یا ششماہی اپنے ملازمین کو bonus یا Reward دینے کی ترتیب بنائیں۔ یہ عمل ملازمین کے لیے سب سے بڑا محرک (Motivation) ہے۔ اس سے نہ صرف ملازمین اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں، بلکہ کبھی ضرورت پڑنے پر اضافی وقت بھی خوشی سے دیتے ہیں۔
9: مارکیٹنگ، ایڈوٹائزنگ: اپنی حیثیت کے مطابق اپنے کاروبار کی مارکیٹنگ کریں۔ اس کے لیے اشتہارکی مہم بھی چلائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ عوام الناس کو آگاہ کرنے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کریں۔ تاہم ضروری ہے آپ کی ایڈوٹائزنگ اور مارکیٹنگ اللہ کے احکامات سے ہرگز متصادم نہ ہو۔ ایڈوٹائزنگ کے شریعہ کمپلائنس طریقے اختیار کرنے میں جدّت بھی ہے اور برکت بھی۔
10: چیک اینڈ بیلنس: کاروبارکی ابتداء سے اصول پسند، مضبوط، ایماندار مینجمنٹ کا انتخاب کریں۔ اپنے کاروبار کے ہر حصے میں چیک اینڈ بیلنس (Check & Balance) رکھیں۔ ہر شخص کو اس کی قابلیت جانچنے کے بعد اس کے مطابق کام سونپیں اور روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی (Performance) طلب کریں۔ اس سے تمام ملازمین میں ذمہ داری پیدا ہو گی اور جواب دہ ہونے کا ڈر بھی ہو گا۔
11: اپنا حصہ ڈالیں: اپنے کاروبار کے ہر نوعیت کے کام خود بھی انجام دیتے رہا کریں، خواہ اس کام کے لیے ملازمین ہی کیوں نہ ہوں، تاکہ غیر متوقع حالات آنے پر آپ ہر مسئلے سے نمٹ سکیںاور دوسروں کی محتاجی کی ضرورت نہ ہو، ورنہ آپ کا کاروبار آپ کے سامنے ڈوب رہا ہوگا اور آپ ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔
12 : حکمت عملی: کاروبار سے جڑے اہم لوگوں میں گاہک کا نمبر سب سے پہلے آتا ہے۔ گاہک کو خوش اور مطمئن رکھنے کا آسان ترین حل اشیا کا اعلیٰ معیار اور کم قیمت ہے۔ پرانے اور مستقل گاہک کو وقت پر ان کی اشیا فراہم کریں۔ اگر گاہک کو آپ کے ذریعے بروقت، معیاری اور سستی چیز فراہم ہو گی، وہ آپ کے علاوہ کہیں اور رجوع کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔
13: رعایت برتیں: چھوٹے گاہک کا بھی بہت خیال رکھیں۔ انہیں ضرورت کے وقت کم قیمت پر ادھار اشیا فراہم کریں، تاکہ ان کو بھی کمانے کا موقع ملے۔ ان کے ساتھ ہرگز سود کا معاملہ نہ رکھیں۔ ان کو کچھ وقت کی مہلت دیں تاکہ وہ آپ کی اشیا فروخت کر کے آپ کے پیسے بھی لوٹا سکیں اور خود بھی دو پیسے کما سکیں۔
14: امانت داری: جھوٹ بول کر اشیا فروخت نہ کریں۔ امانت داری کے ساتھ گاہک کو اس کی ڈیمانڈ کے مطابق اشیا فراہم کریں۔ امانت داری سے پیسہ کمانے میں بہت برکت ہے۔
15: اخلاقیات کا لحاظ: اشیا فروخت کرنے میں گاہک کو جتنی سہولت فراہم کر سکتے ہیں، اس میں کوتاہی نہ کریں۔ اس سے آپ کے کاروبار کی کارکردگی پر بھی اثر پڑے گا اور اخلاقی اعتبار سے بھی یہ اچھی بات ہے۔ اس طرح آپ مارکیٹ میں اپنی ساکھ بنا سکتے ہیں جو آپ کے کاروبار کی ترقی کے لیے تیر بہدف ہے۔ 16 دلکش پیکنگ: پروڈکٹ کی کوالٹی کے ساتھ ساتھ پیکنگ کا بھی خیال رکھیں۔ پیکنگ مضبوط اور دل کش ہو، اس سے گاہک متاثر اور متوجہ بھی ہوتا ہے۔
17: رعایتی اسکیمیں: وقتاً فوقتاً مختلف اسکیمیں متعارف کروائیں، جس سے گاہک آپ کی اشیا کو خریدنے میں اپنا فائدہ سمجھے اور ان کو بچت بھی ہو۔
18: حسد کا نقصان: اپنے ہم پیشہ کاروباری افراد سے اچھے تعلقات قائم کریں، بجائے اس کہ ان سے حسد اور جلن رکھی جائے۔ آپ کی اس عادت سے آپ کا دھیان اپنے کاروبار سے زیادہ ان کے کاروبار کی طرف ہو گا، جو آپ کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ حسد کرنے والے کو اللہ اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سخت ناپسند فرمایا ہے۔
19: بدلتے حالات کے ساتھ: روزانہ کاروباری خبروں پر نظر رکھیں تاکہ آپ کو مارکیٹ کی مکمل معلومات ہوں، بدلتے حالات سے باخبر رہیں، تاکہ اس کے مطابق خود کو ڈھال سکیں۔
20 : با اصول شہری کی طرح: حکومت کے قوانین پر امانت داری سے عمل کریں۔ اپنا ٹیکس بچانے کے لیے جھوٹی رپورٹیں پیش نہ کریں۔ جتنا آپ پر ٹیکس بنتا ہے، پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کریں۔
21 : وبال سے بچاؤ کے لیے: وقت پر زکوۃ ادا کریں، کیونکہ زکوۃ دینے سے مال میں برکت ہوتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ اور دنیا کی مشہور شخصیات کے آخری الفاظ
ReplyDeleteدنیا میں ایسی کئی عظیم شخصیات گزری ہیں جو ظاہری طور پر تو آج ہم موجود نہیں لیکن اپنی بہترین صلاحیتوں اور کارناموں کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں- ہم یہاں آپ کو دنیا کی چند ایسی ہی عظیم شخصیات کے موت سے پہلے کہے گئے آخری الفاظ کے بارے میں بتائیں گے-
“نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم“
سب سے پہلے بات کا آغاز کریں گے ہم اپنے جان سے پیارے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے جن کی ذاتِ اقدس کا موازنہ دنیا کی کسی شخصیت سے نہیں کیا جاسکتا٬ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے اور ہماری جان و مال کروڑوں بار اپنی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر قربان- حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ “ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے جو آخری الفاظ نکلے وہ یہ تھے الہم رفیق الاعلیٰ - یعنی اے اﷲ مجھے رفیق اعلیٰ میں شامل فرما“ (بخاری و مسلم)-
قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اﷲ علیہ
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اﷲ علیہ کے معالج پروفیسر ڈاکٹر الہی بخش قائداعظم نے اپنی موت سے قبل جو آخری الفاظ ادا کیے تھے وہ یہ تھے “ میں اب نہیں “- ان الفاظ کی ادائیگی کے 30 منٹ بعد قائداعظم رحمتہ اﷲ علیہ انتقال فرما گئے تھے-
لیاقت علی خان رحمتہ اﷲ علیہ
لیاقت علی خان رحمتہ اﷲ علیہ کو پاکستان کو پہلے وزیرِ اعظم بننے کا اعزاز حاصل تھا- لیکن بدقسمتی سے زندگی ان کے ساتھ وفا نہ کرسکی اور 1951 میں ایک جلسے کے دوران فائرنگ کر کے شہید کردیا گیا تھا- یہ جلسہ پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ہورہا تھا اور موت سے قبل لیاقت علی خان رحمتہ اﷲ علیہ کے آخری الفاظ یہ تھے کہ “ اﷲ پاکستان کی حفاظت کرے“-
ذوالفقار علی بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے ذریعے موت دی گئی تھی- انہیں جب پھانسی سے قبل وصیت تحریر کرنے کے لیے پوچھا گیا تھا تو ان کا جواب تھا کہ “ میں نے کوشش تو کی تھی لیکن خیالات چونکہ بہت زیادہ منتشر تھے اس لیے ایسا نہیں کرسکے- اور کاغذات کو جلا دیا“- اور یہی الفاظ ذوالفقار علی بھٹو کے آخری الفاظ تھے-
صدام حسین
عراق پر 20 سال سے زائد عرصے تک حکمرانی کرنے والے آمر صدام حسین کو امریکہ نے پھانسی کے ذریعے موت دی تھی- صدام حسین پھانسی گھاٹ پر پہنچنے کے بعد پھانسی لگنے سے قبل کلمہ طیبہ پڑھ رہے تھے اور یہ کلمہ مکمل نہ ہوسکا تھا- یہی صدام حسین کے آخری الفاظ بھی تھے - صدام حسین نے جتنا کلمہ پڑھا تھا اس کا ترجمہ یہ ہے کہ “ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم“- بس اتنے کے بعد ہی صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی تھی-