کاروبار پر نوکری کو ترجیح دینا شاید ہمارے خمیر میں شامل ہوچکا ہے ، بہت سے لوگ ہمت نہیں کرتے اور بعض کے لیے عام تام سا کام کرنا ناک کٹوانے والی بات ہے ۔ اور ان کی شان کے خلاف ہے
یہی وجہ ہے کہ جب کسی ادارے میں 100 سیٹس نکلتی ہیں تو وہاں بلا مبالغہ 10 لاکھ درخواستیں جمع ہوجاتی ہیں ،
ہماری اسی بزدلانہ سوچ سے فائدہ اٹھا کر ہی گورنمنٹ NTS جیسے گینگ کے ساتھ مل کر جاب کا اعلان کرتی ہے ،
عوام فوج در فوج چپڑاسی سے لے کر کلرک اور فیلڈ آفیسر سے لے کر ڈرائیور تک کی سیٹس پر اپلائی کردیتی ہے ، (ہر سیٹ پر اپلائی کرنے کی فیس 400 سے لے کر 1000 تک ہوتی ہے )
اس طرح دونوں ادارے مل کر اربوں روپے کمالیتے ہیں اور عوام حالات کو کوستی رہ جاتی ہے سوائے ان 100 کے جن کو جاب ملی ۔۔۔ لیکن اپنے کاروبار کا خیال کسی کو نہیں آتا بلکہ اگلی جاب ڈھونڈنے لگتے ہیں اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے ۔
ہم وہ لوگ ہیں جو نعوذباللہ MBA کر کے بھی جاب ڈھونڈتے ہیں ، خاص طور پر جو بچہ 12،14 کلاسیں پڑھ گیا اب مجال ہے جو وہ اپنے کام کا سوچے،
میں ڈگری یا تعلیم کی مخالفت بالکل نہیں کررہا کہ یہ آپ میں اعتماد پیدا کرتی ہے ، آپ کے روابط پڑھے لکھے لوگوں سے بناتی ہے ، آپ میں گفتگو کی صلاحیت پیدا کرتی ہے ، آپ کی زبان صاف کرتی ہے
لیکن یہ کیوں سمجھ لیا جاتا ہے حضور کہ اب آپ نے کسی کے تھلے رہ کر 15،20 ہزار کی نوکری ہی کرنی ہے ، ذلیل ہونا ہے ، آپ اپنے محلے اور خاندان میں ہی خوشحال کاروباری لوگوں پر نظر دوڑا لیں کہ وہ کتنے پڑھے لکھے ہیں؟؟؟
اکثریت کی تعلیم ان شاءاللہ واجبی سی نکلے گی ، خاص طور پر سبزی منڈی، غلہ منڈی پر تو 80% ان پڑھ طبقے کا راج ہے، تو جب وہ کر سکتے ہیں تو یقین کریں آپ ان سے سو گنا اچھے طریقے سے کام کرسکتے ہیں ۔ بس جِگرا ہونا چاہیئے۔
ہمارے قریب ہی ایک بندے نے 5،6 سال قبل تندور پر روٹیاں لگانے سے کام شروع کیا تھا ، اور اب چھوٹے سے ہوٹل کا مالک ہے، ساتھ والی جگہ بھی لے لی ہے ، 4 بندے کام پے رکھے ہوئے ہیں اور خود بیٹھ کر بس ان کو گالیاں بکتا ہے ،سپروائز کرتا ہے اور پیسے گنتا ہے ، مزے کی بات یہ کہ اَن پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ جاہل اُجڈ بھی ہے اور کاروباری اصولوں سے نابلد بھی ، میں اسے دیکھ کر یہی سوچتا ہوں کہ اگر یہ پڑھا لکھا ہوتا تو اور بھی ترقی کرسکتا تھا ،
ایک اور عزیز ہیں ان کے 4 پڑھے لکھے بیٹے ہیں ، بہت اچھا کماتے ہیں ، ایک بیٹا نِکما نکلا ، پڑھنے سے انکاری ہوا اور موٹر سائیکل مکینک کے پاس کچھ عرصہ کام سیکھ کر اپنی ورکشاپ بنا لی اور اب چاروں بھائیوں جتنا اکیلا کماتا ہے ،
اس طرح کی بہت سی مثالیں اور بھی ہیں ، لیکن پھر بھی ہماری اکثریت اس طرف نہیں آتی ،
حالانکہ ہمارا ملک گنجان آبادی کی وجہ سے کاروباری اعتبار سے بہت موزوں ہے ، گاہک بھی کچھ ہی عرصہ میں بڑھ جاتے ہیں
، ہمارا کاروباری طبقہ روایتی طریقہ کار پر ہی کارفرما ہے اگر آپ کوئی نیا انداز نیا ٹرینڈ شروع کریں تو اس کو بہت تیزی سے مقبولیت ملتی ہے جیسے ملتان میں ہی ایک انجینرنگ کے طالبعلم نے پیزے کی دکان کیلیے 3 زنانہ روبوٹ تیار کیے اور پورے ریجن سے گاہک اس کے پاس آرہے ہیں، یہ صرف ایک مثال ہے تفصیل لکھنے بیٹھوں تو تحریر طویل ہوجائیگی،
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غربت اور آبادی کی کثرت کی وجہ سے لیبر بہت سستی مل جاتی ہے ۔۔۔لوگ 10،12 ہزار پر بھی کام کرنے کو تیار ہیں، ورکشاپ والے تو اتنے ظالم ہوتے کہ معصوم بچوں کو ہفتے کے 300 روپے دیتے ہیں اور کام بھی کھینچ کے لیتے ہیں یعنی ماہانہ 1200 روپے صرف___ ☹😶
اگر لیبر کو مناسب تنخواہ دے دی جائے تو اسی میں خوش ہوجاتی ہے اور اپنا بزنس شروع کرنے کا رسک لینے کو بے وقوفی سمجھتی ہے ۔۔۔ اگر جدید ٹیکنیکل انداز میں ان کو استعمال کیا جائے تو ان کے سہارے آپ تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں اور بجائے روزگار ڈھونڈنے کے دوسروں کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ مناسب تجربہ ، محنت اور مستقل مزاجی ، نت نئے انداز اور دیانتداری جیسے اصولوں کو سامنے رکھ کر کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ ترقی نہ کریں *باذن اللہ* ،
اگر آپ غربت کے منحوس چکر سے نکلنا چاہتے ہیں تب تو آپ کے لیے بہت ہی ضروری ہے کہ آپ اپنے کام کے بارے میں سیریس ہوجائیں ورنہ بس گذارا ہی کرتے رہیں گے لیکن ترقی نہیں کرپائیں گے،
اپنے علاقے کی مارکیٹ کو دیکھ کر اور کسی سمجھدار شخص سے مشورہ کر کے جلد از جلد کسی شعبے میں تجربہ لینا شروع کردیں ، یا جس جگہ نوکری کرتے ہیں اُدھر ہی ہر چیز کو اس اینگل سے دیکھنا شروع کردیں کہ آپ اگر یہی خود کا کام کریں تو کن کن چیزوں کی ضرورت پڑے گی
بعض لوگ ناتجربے کاری کا بہانہ کرکے دبکے بیٹھے رہتے ہیں اور نوکری میں ذلیل ہوتے رہتے ہیں ، یاد رکھیں تجربے سے مراد بس اس شعبے سے متعلق بنیادی معلومات جان لینا ہے جو غبی سے غبی ذہن کا انسان بھی 2،3 سال میں سیکھ سکتا ہے باقی اصل تجربہ تو اپنے ہاتھ سے کرنے سے ہی آئیگا ، پھر ہماری عوام بھی ابھی اتنی پروفیشنل نہیں کہ آپ کا تجربہ اور مہارت چیک کرتی پھرے ،
ایک لڑکے نے 3 سال پہلے میرے سامنے ڈینٹل کلینک کھولا ، پتہ چلا کہ باقاعدہ ڈینٹسٹ نہیں ہے کوئی چھوٹا موٹا ڈپلومہ کیا ہے ، میں نے اس وقت یہی سوچا کہ بھاگ بھوگ جائیگا ، اس کے پاس کون آئیگا ، مارکیٹ بھی ایسی کہ وہاں یا تو ایزی لوڈ والوں کی دکانیں ہیں یا کتابوں کی ، اور واقعی ایک سال تک وہ فارغ بیٹھا رہا لیکن ہمت نہیں ہاری ، جما رہا اور آج اس کے کلینک کا ماحول ہی بدل چکا ہے ، اے سی لگوایا ہوا ہے، مشینری جدید لے لی ہے اور کان کھجانے کی فرصت نہیں ، حالانکہ ملتان میں ہی نشتر اور ابنِ سینا میں باقاعدہ درجنوں پروفیشنل ڈاکٹرز معمولی ترین فیس کے ساتھ بہترین علاج کررہے ہیں،
لیکن کیا ہے کہ لوگوں کے پاس جاننے کا وقت ہی نہیں ہے،
تو دوستو اگر آپ تعلیم یافتہ ہیں ، ٹیلینٹد ہیں ، کری ایٹو دماغ رکھتے ہیں تو آج سے ہی اپنا کاروبار کرنے کا مضبوط ارادہ کریں بھلے چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو ، ایک ڈائری اٹھائیں ، لائحہ عمل تیار کریں اور اس پر کام شروع کردیں ۔۔۔
No comments:
Post a Comment