International News, Online Earning Ways, New Jobs , Tips & Tricks Life Changing Writing & Startup Business

BREAKING NEWS

اسلام علیکم دوستوں میرا نام عطاءاللہ خان ڪيهر ہے WELCOME TO MY BLOG SUBSCRIBE MY BLOG BY ADDING EMAIL ???? "Attaullah Kehar" AND SEE SOMETHING NEW WhatsApp =+923083033205

Sunday, March 24, 2019

زندگی بدلنے والی تحریر



زندگی بدلنے والی تحریر

کسی نے شادی کرلی اور دس سال تک صاحب اولاد ہونے کا منتظر رہا، اور دوسری طرف کسی کو شادی کے پہلے برس ہی اولاد ِنرینہ کی نعمت مل گئی۔۔
٭کسی نے بائیس سال کی عمر میں امریکہ سے گریجویشن کیا اور پانچ سال ایک اچھی ملازمت کے حصول میں دھکےکھاتا رہا، اور دوسری طرف ایک شخص ستائیس سال کی عمر میں سرکاری یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوا اور فوری طور پر اسے اسکی "ڈریم جاب" مل گئی۔
٭ کوئی پچیس سال کی عمر میں کروڑ پتی اور اپنے بزنس کا مالک تو بن گیا مگر اسکی اولاد انتہائی نااہل، نکمی اور ان پڑھ رہی اور دوسری طرف ایک شخص نے بچپن سے غربت اور محرومیاں دیکھیں مگر پچاس سال کی عمر اس کے بچے پڑھ لکھ کر سول اور ملٹری بیوروکریٹس بنے، بزنس ٹائیکون بنے کہ کروڑ پتی افراد بھی اس کی قسمت پر رشک کرنے لگے۔
ہم میں سے ہر شخص اپنی نیت اور مسلسل جدوجہد سے اپنی معاشی حالت کو بدلتاہے۔ مگر قسمت اور تقدیرکا "فیکٹر" ان سب سے اوپر ہے۔
آپ کے کلاس فیلو، دوست یا رشتہ دار یا آپ سے عمر میں چھوٹے لوگ بظاہر آپ سے آگے ہو سکتے ہیں، ان سے جیلس نہ ہوں اور نہ اللہ سے بدگمان ہوں کہ اس کو یہ کیوں دیا اور مجھے کیوں نہ دیا نہ اس کی شکل ہے نہ عقل اللہ نے کیا دیکھ کے اس کو یہ سب دے دیا؟ اس میں ایسی کیا خوبی اور صلاحیت ہے جو مجھ میں نہیں؟
صحت تندرستی، اولاد، تعلیم، عزت شہرت، تعلیم، جاب دولت گاڑی بڑا گھر یہ سب اللہ کی تقسیم اور اس کی عطا ہے اس لیئے اللہ کی تقسیم سے اختلاف اور اس کو چیلنج مت کیجئے۔ جو آپ کی قسمت میں ہے وہ کوئی چھین نہیں سکتا اور جو نہیں ہے وہ کوئی دے نہیں سکتا۔ ہر نعمت کو دیکھتے ہی آپ کی سوچ اس انسان کی بجائے اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے جس نے درحقیقت اسکو یہ نعمت عطاکی۔
کسی سے پوچھا گیا "حسد" کیا ہے؟
فرمایا اللہ کی تقسیم سے اختلاف رکھنا۔
ہم کیسے نادان لوگ ہیں جو اپنے مالک سے نعمت کا سوال تو کرتے نہیں لیکن کسی اور پہ کرم ہوتا دیکھ نہیں سکتے۔ ہم دن میں کئی بار اللہ کی تقسیم سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور "مجھ میں کیا کمی ہے" کہہ کے اس کی تقسیم کو چیلنج بھی کرتے ہیں اور پھر سکون اطمینان سےخالی دل کا شکوہ بھی کرتے ہیں ..

ایک آٹھ دس سال کی معصوم سی غریب لڑکی بک اسٹور پر چڑھتی ہے اور ایک پینسل اور ایک دس روپے والی کاپی خریدتی ہے اور پھر وہیں کھڑی ہو کر کہتی ہے انکل ایک کام کہوں کروگے؟
جی بیٹا بولو کیا کام ہے؟
انکل وہ کلر پینسل کا پیکٹ کتنے کا ہے، مجھے چاہیے، ڈرائنگ ٹیچر بہت مارتی ہے مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں نہ ہی امی ابو کے پاس ہیں، میں آہستہ آہستہ کرکے پیسے دے دوں گی.
شاپ کیپر کی آنکھیں نم ہیں، بولتا ہے بیٹا کوئی بات نہیں یہ کلر پینسل کا پیکٹ لے جاؤ لیکن آئندہ کسی بھی دکاندار سے اس طرح کوئی چیز مت مانگنا، لوگ بہت برے ہیں، کسی پر بھروسہ مت کیا کرو.
جی انکل بہت بہت شکریہ میں آپ کے پیسے جلد دے دوں گی اور بچی چلی جاتی ہے.
ادھر شاپ کیپر یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے اگر ایسی بچیاں کسی وحشی دکاندار کے ہتھے چڑھ گئیں تو زینب کا سا حال ہی ہوگا.
ٹیچرز سے گذارش ہے خدارا اگر بچے کوئی کاپی پینسل کلر پینسل وغیرہ نہیں لا پاتے تو جاننے کی کوشش کیجئے کہ کہیں اس کی غربت اس کے آڑے تو نہیں آ رہی، اور ہو سکے تو ایسے معصوم بچوں کی تعلیم کے اخراجات آپ ٹیچر حضرات مل کر اٹھا لیا کریں، یقین جانیں ہزاروں لاکھوں کی تنخواہ میں سے چند سو روپے کسی کی زندگی نہ صرف بچا سکتے ہیں بلکہ سنوار بھی سکتے ہیں۔
شکریہ


ابوالکلام اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ ملازمت بھی کرتی تھیں اور گھر کا کام کاج بھی وہی کرتی تھیں ۔
ایک رات کھانے کے وقت انہوں نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھی ۔ میں والد کے رد عمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ غصہ کا اظہار کریں مگر انہوں نے انتہائی سکون سے کھانا کھایا اور پھر مجھ سے دریافت کیا کہ آج سکول میں میرا دن کیسا گزرا ۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا لیکن اسی اثنا میں میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی ۔ مگر میرے والد نے کہاکہ ان کو یہ روٹی کھا کر لطف آیا ۔ اسی رات اپنے والد کو شب بخیر کہنے میں ان کے کمرے میں گیا تو ان سے سوال کیا کہ کیا واقعی انہیں جلی روٹی کھا کر لطف آیا ؟ انہوں نے پیار سے مجھے اپنے بازؤں میں بھر لیا اور جواب دیا کہ تمہاری والدہ نے ایک پرمشقت دن گزارا اور پھر تھکنے کے باوجود گھر آکر ہمارے لئے کھانا بھی تیار کیا ۔۔۔۔۔ ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی جذبات کو مجروح کرتی ہے ۔
میرے بچے! زندگی بے شمار ناپسندیدہ اشیا اور شخصیات سے بھری ہوئی ہے۔ میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ارد گرد لوگ اور عزیز واقربا بھی غلطی کر سکتے ہیں ۔ لہذا ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا، رشتوں کو بخوبی نبھانا اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے ۔ زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں معذرت اور پچھتاووں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔


پرانے زمانے کى بات ہے ایک سُنار جو کے بمبئی کا رہنے والا تھا لاہور آیا اس کے پاس کافى موتى تھے اس نے وه موتى ایک مجلس میں کھولے اور سب کو دکھانے لگا، اس نے ایک موتى جیب میں سے نکالا اور لوگوں کو دکھاتے ہوئے بولا کے یہ موتى شب افروز ہے (یعنی رات کو چمکتا ہے)
جب اس نے سامان سمیٹا اور اُٹھ کر جانے لگا تو ایک چور جو اسى مجلس میں بیٹھا تھا پوچھنے لگا جناب کہاں کے ارادے ہیں۔ سُنار نے جواب دیا بمبئی جا رہا ہوں چور نے کہا: اتفاق دیکھیں؛ میرا بھی وہیں کا پروگرام ہے چلیں مل کے چلتے ہیں. یہ سُنار بھى سمجھ گیا کے یہ میرا ہمسفر نہیں ہے بلکہ اس موتى کے پیچھے ہے، لیکن سمجھدار تھا کہنے لگا آؤ چلتے ہیں. دونوں مل کر چل پڑے سارا دن سفر کیا اور شام کو کو جب سونے لگے تو چور نے اپنى واسکٹ وغیرہ جو قمیض کے اوپر پہنی ہوئی تھی اُتار کر علیحدہ ایک جگہ پے لٹکا دی، سُنار نے وه موتى اپنى جیب سے نکالا اور نظر بچا کے وه قیمتی موتى اس کى جیب میں رکھ دیا اور خود بے فکر ہو کر سو گیا؛ اب یہ چور رات کو اُٹھا اور اس کى جیب اس کا سامان سب دیکھنے لگا لیکن کہیں بھى موتى نہ ملا اخر وه سو گیا، صبح اُٹھتے ہی سُنار نے نظر بچا کر وه قیمتی موتى اس کى جیب سے نکال کر اپنے پاس رکھ لیا، جب چور اُٹھا تو اس نے ناشتہ کرتے ہوئے سُنار سے باتوں باتوں میں پوچھا کے وه تمہارے پاس وه جو قیمتی موتى تھا وه کہاں ہے رات کو چمک بھى نہیں رہا تھا، سُنار نے موتى جیب سے نکال کر دکھایا اور کہا کے یہ تو میرے پاس ہے۔
چور حیران ہو گیا کے میں نے اس کى پورى جیب چھان ماری لیکن مجھے یہ نہ ملا لیکن اس نے ابھى جیب سے نکال کر دیکھا دیا خیر آج رات نکال لوں گا، سُنار نے اگلى رات پھر وہی عمل کیا ادھر چور بھى سارى رات ڈھونڈتا رہا لیکن کچھ نہ ملا ، صبح کو پھر وہی ماجرا کے موتى سُنار کى جیب سے نکل آتی، یہی کام تین سے چار دن چلتا رہا آخر چور نے ایک صبح سُنار سے کہا کے میں آپ کا ہم راہی نہیں تھا میں بس آپ کے ساتھ اس موتى کى خاطر تھا آج میں آپ کو اُستاد مانتا ہوں آپ مجھے بتائیں کے آپ یہ موتى رکھتے کہاں تھے رات کو. اس نے کہا میاں تو اوروں کى جیبیں ٹٹولتا رہا کبھى اپنى جیب میں بھی ہاتھ ڈالا ہوتا.
آج ہمارى مثال اس چور کى سى ہے جو لوگوں کے عیب ڈھونڈتا پھر رہا ہو اور کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا تک نہیں ۔
ہماری یہ عادت بن چکی ہے ؛
کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی غلطیاں ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں، کبھی اپنے آپ کو نہیں ٹٹولتے

No comments:

Post a Comment