International News, Online Earning Ways, New Jobs , Tips & Tricks Life Changing Writing & Startup Business

BREAKING NEWS

اسلام علیکم دوستوں میرا نام عطاءاللہ خان ڪيهر ہے WELCOME TO MY BLOG SUBSCRIBE MY BLOG BY ADDING EMAIL ???? "Attaullah Kehar" AND SEE SOMETHING NEW WhatsApp =+923083033205

Sunday, February 24, 2019

ترقی کرتا ہوا کباڑ کا کاروبار


بدلتے ہوئے حالات اور ترقی کرتے ہوئے دور میں کچھ ایسے کاروبار وسعت اختیار کر رہے ہیں جن کو کچھ عرصہ پہلے کرنا معیوب پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ایسا ہی ایک کاروبار ناکارہ اشیاء کے خرید و فروخت کا ہے جسے کباڑ کا کاروبار کہا جاتا ہے اور ناکارہ اشیاء کے خریدار کو کباڑیا کہا جاتا ہے۔وہاڑی میں کباڑ کے حوالے سے پرانی چونگی اور کلب روڈ کے نزدیک زیادہ دکانیں موجود ہیں۔پرانی چونگی کے نزدیک بنی کباڑ کی دکان کے مالک عمر راجپوت نے بتایا کہ وہ 15 سال سے کباڑ کا کام کر رہے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ لوگوں میں پرانی اور ناکارہ اشیاء بیچنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے گلی گلی پھیری لگا کر فالتو اشیاء جمع کرنے والوں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ اب تو شہر کے محلوں اور گلیوں میں کباڑ کی دکانیں بن گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے سینکڑوں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان کباڑ کے کاروبار کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں۔
اُن کے مطابق وہ اور دور تھا جب کباڑ کا کام کرنے والوں کی اکثریت ناخواندہ ہوتی تھی لیکن اس پیشہ میں سرمایہ کاری کم اور منافع کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے پڑھے لکھے افراد زیادہ شامل ہو رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کباڑ ہم ریڑھی والے کباڑیوں سے خریدتے ہیں۔ جس میں سے کارآمد اشیاء کو الگ کر لیتے ہیں جس کو بازار کے مقابلہ میں آدھی قیمت پر ضرورت مندوں کو فروخت کرتے ہیں ہمارے خریدار متوسط طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں جو بازار میں فروخت کی جانے والی مہنگی اشیاء کی قیمت برداشت نہیں کر سکتے اور بقایا کباڑ خانیوال روڈ پر یا لاہور میں بنی منڈیوں میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔'ہم منڈی جانے سے پہلے وہاں کا ریٹ پتہ کر لیتے ہیں جس کا ریٹ سب سے زیادہ ہو وہاں مال بیچ دیتے ہیں۔'وہ بتاتے ہیں کہ وہ لوہا 32 روپے، پلاسٹک 30 روپے خرید کر منڈی میں 35 روپے تک بیچتے ہیں جس سے اُن کو ماہانہ تیس سے پینتیس ہزار منافع ہو جاتا ہے۔جواد زاہد گورنمنٹ کالج کے سٹوڈنٹ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کاروبار کو کم ٹائم دے کر وہ زیادہ منافع کما رہے ہیں میں نے کچھ ٹھیلے والے رکھے ہوئے ہیں جن کو صبح دو، دو ہزار روپیہ دیتا ہوں وہ سارا دن گلی محلوں اور مختلف جگہوں سے ناکارہ اشیاء خریدتے ہیں اور شام کو آ کے مجھے دے دیتے ہیں اور اپنی روزانہ کے حساب سے مزدوری لے لیتے ہیں۔ اُن کے مطابق اس منافع سے وہ اپنے تعلیمی اور گھر کے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہر علاقے میں ایک مرکزی کباڑیا ہوتا ہے جس کے پاس 20 سے 30 ٹھیلے والے ہوتے ہیں ہر پھیری لگانے والے کا مخصوص ایریا ہوتا ہے وہ اپنی حدود کے اندر گھروں سے ردی، سریا، شیشے کی بوتلیں، پلاسٹک کی بوتلیں، تانبہ، لوہا، سلور اور فالتو اشیاء کلو کے حساب سے خرید کر لاتا ہے اور ہر چیز کو علیحدہ کر کے وزن کے حساب سے مرکزی کباڑئیے کو فروخت کر دیتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس سے اُن کو 700 سے 1000 روپے تک روزانہ کی بنیاد پر منافع ہو جاتا ہے۔اُن کے مطابق اکثر لوگ ریڑھی کی بجائے پیدل ہی ناکارہ اشیاء کی خریداری کرتے ہیں اور شام کو جو کچھ بھی خریدا ہوتا ہے وہ مرکزی کباڑئیے یا جہاں سے منافع زیادہ ملے اُودھر بیچ دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وہاڑی میں عام طورہ میں زیادہ منافع کمپیوٹر کے استعمال شدہ مانیٹروں کی خرید پر ہوتا ہے کیونکہ مانیٹروں سے ہم پکچر ٹیوبوں کو نکال لیتے ہیں جو بازار میں بنی مختلف دکانوں پر اچھی قیمت کے عوض فروخت ہو جاتی ہیں جن سے مقامی سطح پر سستے ٹی وی سیٹ بنائے جاتے ہیں۔
سلمہ بی بی کباڑ کی دکان پر اپنی دن بھر کی اشیاء جو اکھٹی کی ہوئی تھیں وہ بیچ رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کوڑے میں سے ردی اور پرانی بوتلیں اکٹھا کرتی ہیں جن کو لوگ ناکارہ سمجھ کر پھینک دیتے ہیں جس کو بعد میں الگ الگ کر کے ایسے کباڑئے کو بیچتی ہیں جو زیادہ منافع دے۔وہاڑی کباڑ ایسوسی ایشن کے صدر حاجی دین محمد نے سجاگ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1975ء میں وہاڑی میں کباڑ کی صرف ایک دکان موجود تھی لیکن اب لاتعداد موجود ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق وہاڑی میں تقریبا ایک ہزار سے پندرہ سو تک لوگ اس شعبہ سے واسطہ یا بلاواسطہ طور پر منسلک ہیں۔کباڑ کے کاروبار میں سب سے زیادہ مانگ پرانی ردی کی ہوتی ہے جس کو ہری پور کے علاقہ میں ری سائیکل کر کے دوبارہ سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کباڑ کا کاروبار بلاشبہ منافع بخش تو ہے لیکن اکثر کباڑ خریدنے والے جب چیزوں کو ٹٹولتے ہیں تو یہ کباڑ زہریلا اور صحت کے لئے مضر بھی ہوتا ہے لیکن اس کے مضرِصحت ہونے کے بارے میں لاعلمی اور بغیر سرمایہ کے اس میں زیادہ منافع ہونے کی وجہ سے مزید لوگ اس کاروبار میں شامل ہو رہے ہیں۔




No comments:

Post a Comment